"بدعت (اسلام)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
 
(8 صارفین 33 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1:
[[ابوبکر صدیق]][[بریلوی مکتب فکر]][[بریلوی مکتب فکر]][[بریلوی مکتب فکر]][[بریلوی مکتب فکر]][[بریلوی مکتب فکر]]{{اصل تحقیق}}
{{اصول فقہ}}
'''بدعت''' بنیادی طور پر عربی لفظ "بدعۃبدعة" سے ماخوذ ہے جو "بَدَعَ" سے مشتق ہے جس کے معنی وجود میں لانا یا وقوع پزیر ہونا کے ہیں۔ کسی شے کے عدم سے وجود میں آنے کو بدعت کہتے ہیں۔ اس طرح بدعت کرنے والے فاعل کو مبتدع یا بدعتی اور عربی میں "بَدِيع" کہا جاتا ہے۔ لغوی اصطلاح میں بدعت کسی مفعول کے عدم سے وجود میں آنے اور مبتدع اُسے وجود میں لانے والے فاعل کیلئےکے لیے استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا
 
<div style='text-align: center;'>
سطر 7 ⟵ 8:
ترجمہ: (وہی اللہ) موجد (نیا پیدا کرنے والا) ہے آسمانوں اور زمین کا</div>
 
اس آیتِ میں اللہ نے آسمانوں اور زمین کے وجود میں آنے کا بیان کرتے ہوئے اپنی ذات کو آسمانوں اور زمین کا بدیع یعنی مبدع (وجود میں لانے والا) کہا۔ اسی وجہ سے اللہ کا ایک صفاتی نام {{ٹ}}"البَدِيع"{{ن}} یعنی مبتدع(وجود میں لانے والا) بھی ہے۔ شرعی اصطلاح میں بدعت کا حکم ہر اُس فعل یا مفعول کیلئےکے لیے استعمال ہوتا ہے جس کا وجود قرآن و سنت کی نص سے ثابت نہ ہو اور وہ مابعد قرآن و سنت ظاہر ہو۔
 
علما نے بدعت کی مختلف تعریفات کی ہیں جن میں ابن تیمیہ، علامہ سیوطی اور [[ابو اسحاق شاطبی|شاطبی]] اور دیگر کئی علما وفقہا ہیں۔ [[ابو اسحاق شاطبی]] لکھتے ہیں: البدعة اذن طريقة فى الدين مخترعة تضاهي الشريعة يقصد بالسلوك عليها المبالغة فى التعبد لله سبحانه ”بدعت ایک ایسا راستہ ہے جسے دین میں ایجاد کر لیا گیا ہو اور شریعت کے مخالف ہو اور اس پر چلنے کا مقصد زیادہ عبارت ہو۔“ <ref>'''الاعتصام للشاطبي 36/1-37'''</ref>
==بدعت کے بارے میں موقف==
 
== بدعت کے بارے میں موقف ==
بدعت کے بارے میں مسلمانوں کے مختلف مکاتبِ فکر مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں بعض اسے معتدل انداز میں لیتے ہیں اور کچھ اسے یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ذیل میں مختلف مکاتبِ فکر کا موقف پیشِ نظر ہے۔
 
=== بریلوی موقف ===
[[بریلوی مسلک|بریلوی]] بدعت کے لغوی معنی ہیں نئی چیزاصطلاح شریعت میں بدعت کہتے ہیں دین میں نیا کام جو ثواب کیلئےکے لیے ایجاد کیا جائے اگر یہ کام خلاف دین ہو تو حرام ہے اور اگر اس کے خلاف نہ ہو تودرست یہ دونوں معنی قرآن شریف میں استعمال ہوئے ہیں۔
 
(1)# بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ ؕ
 
'''''وہ اللہ آسمانوں اور زمین کا ایجاد فرمانے والا ہے ''''' ۔<ref>(پ1،البقرۃ:117)</ref>
(2)# قُلْ مَا کُنۡتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ
 
'''فرمادو کہ میں انوکھا رسول نہیں ہوں۔ ''' <ref>(پ26،الاحقاف:9)</ref>
(2)قُلْ مَا کُنۡتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ
 
<sub>ان دونوں آیتو ں میں بدعت لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی انوکھا نیا رب تعالیٰ فرماتا ہے</sub> :
'''فرمادو کہ میں انوکھا رسول نہیں ہوں۔''' <ref>(پ26،الاحقاف:9)</ref>
 
وَ جَعَلْنَا فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ رَاۡفَۃً وَّ رَحْمَۃً ؕ وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابْتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبْنٰہَا عَلَیۡہِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللہِ فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنْہُمْ اَجْرَہُمْ ۚ وَکَثِیۡرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوۡنَ ﴿۲۷﴾﴿27﴾
<sub>ان دونوں آیتو ں میں بدعت لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی انوکھا نیا رب تعالیٰ فرماتا ہے</sub> :
 
'''اور [[عیسیٰ علیہ السلام]] کے پیروؤں کے دل میں ہم نے نرمی اور رحمت رکھی اور ترک دنیا یہ بات جو انہوںانھوں نے دین میں اپنی طر ف سے نکالی ۔نکالی۔ ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انہوںانھوں نے اللہ کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے مومنوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا اور ان میں سے بہت سے فاسق ہیں۔ '''<ref>(پ27،الحدید:27)</ref><br />
وَ جَعَلْنَا فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ رَاۡفَۃً وَّ رَحْمَۃً ؕ وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابْتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبْنٰہَا عَلَیۡہِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللہِ فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنْہُمْ اَجْرَہُمْ ۚ وَکَثِیۡرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوۡنَ ﴿۲۷﴾
 
اس آیت سے معلوم ہوا کہ عیسائیوںمسیحیوں نے رہبانیت اور تارک الدنیا ہونا اپنی طر ف سے ایجاد کیا ۔کیا۔ رب تعالیٰ نے ان کو اس کا حکم نہ دیا ۔دیا۔ بد عت حسنہ کے طور پر انہوںانھوں نے یہ عبادت ایجاد کی اللہ تعالیٰ نے انہیںانھیں اس بدعت کا ثواب دیا مگر جو اسے نباہ نہ سکے یا جو ایمان سے پھر گئے وہ عذاب کے مستحق ہوگئےہو گئے معلوم ہوا کہ دین میں نئی بدعتیں ایجاد کرنا جو دین کے خلاف نہ ہوں ثواب کا با عث ہیں مگر انہیںانھیں ہمیشہ کرنا چاہیے جیسے چھ کلمے ،کلمے، نماز میں زبان سے نیتنیت، ،قرآنقرآن کے رکوع وغیرہوغیرہ، ،علمعلم حدیث، محفل میلا د شریفشریف، ،اوراور ختم بزرگان،بزرگان کہ یہ دینی چیزیں اگر چہ حضور صلی ا للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے بعد ایجاد ہوئیں مگر چونکہ دین کے خلاف نہیں اور ان سے دینی فائدہ ہے لہٰذا باعث ثواب ہیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ جو اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کرے اسے بہت ثواب ہوگاہوگا۔ [[بریلوی مکتب فکر]] کے نقطہ نظر کے مطابق بدعت کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں ایک بدعتِ حسنہ یعنی احسن بدعت اور دوسری بدعتِ سیئۃ یعنی بری بدعت جیسا کہ ذیل کی حدیث نبوی میں بیان کیا ۔<brگيا />ہے۔
'''اور عیسیٰ علیہ السلام کے پیروؤں کے دل میں ہم نے نرمی اور رحمت رکھی اور ترک دنیا یہ بات جو انہوں نے دین میں اپنی طر ف سے نکالی ۔ ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انہوں نے اللہ کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے مومنوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا اور ان میں سے بہت سے فاسق ہیں۔'''<ref>(پ27،الحدید:27)</ref><br />
<div style='text-align: center;'>{{اقتباس|{{عربی|مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً، كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ{{ن}}، رواہ جامع صحیح مسلم <ref>([[صحیح مسلم]] از [[امام مسلم]] ۔ کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علي الصدقہ)</ref><br />}}
 
'''ترجمہ :'''
اس آیت سے معلوم ہوا کہ عیسائیوں نے رہبانیت اور تارک الدنیا ہونا اپنی طر ف سے ایجاد کیا ۔ رب تعالیٰ نے ان کو اس کا حکم نہ دیا ۔ بد عت حسنہ کے طور پر انہوں نے یہ عبادت ایجاد کی اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بدعت کا ثواب دیا مگر جو اسے نباہ نہ سکے یا جو ایمان سے پھر گئے وہ عذاب کے مستحق ہوگئے معلوم ہوا کہ دین میں نئی بدعتیں ایجاد کرنا جو دین کے خلاف نہ ہوں ثواب کا با عث ہیں مگر انہیں ہمیشہ کرنا چاہیے جیسے چھ کلمے ، نماز میں زبان سے نیت ،قرآن کے رکوع وغیرہ ،علم حدیث، محفل میلا د شریف ،اور ختم بزرگان، کہ یہ دینی چیزیں اگر چہ حضور صلی ا للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے بعد ایجاد ہوئیں مگر چونکہ دین کے خلاف نہیں اور ان سے دینی فائدہ ہے لہٰذا باعث ثواب ہیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ جو اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کرے اسے بہت ثواب ہوگا ۔<br />
<div style='text-align: center;'>ترجمہ : ـ جو آدمی اسلام میں کوئی اچھا کام جاری کرے پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے تو جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان کے اجر کی مثل اس (جاری کرنے والے) کے لئےلیے بھی لکھا جائے گا،گا اور خود ان عمل کرنے والوں کے اجر میں سے کچھ کم نہ ہوگا۔ اور جو کوئی اسلام میں کوئی برا کام جاری کرے پھر اس کے بعد لوگ اپنے عمل میں لائیں تو ان سب کو جو گناہ ہوگا وہ اس (جاری کرنے والے) کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا ،گا، جبکہ عمل کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی۔/div>}}
 
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے دین میں کوئی نیا اچھا عمل جاری کرنا جو شریعت کے بنیادی اصولوں کے مخالف نہ ہو نہ صرف جائز بلکہ مستحب عمل ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رمضان المبارک میں باجماعت نمازِ تراویح شروع کرنے کے اپنے عمل کو از خود ({{ٹ}} قَالَ عُمَرُ نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ھَذِھِ{{ن}} ۔ یہ اچھی بدعت ہے، بخاری<ref>([[صحیح بخاری]] از [[امام بخاری]] ۔ کتاب صلاۃ تراویح، بابُ فَضلِ مَن قامَ رَمَضَانَ)</ref>) فرماکر نبیِ کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حدیثِ مبارکہ کی عملی تشریح کی۔
بریلوی مسلک کے نقطہ نظر کے مطابق بدعت کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں ایک بدعتِ حسنہ یعنی احسن بدعت اور دوسری بدعتِ سیئۃ یعنی بری بدعت جیسا کہ ذیل کی حدیث نبوی میں بیان کیا گيا ہے۔
<div style='text-align: center;'>مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً، كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ{{ن}}، رواہ جامع صحیح مسلم <ref>([[صحیح مسلم]] از [[امام مسلم]] ۔ کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علي الصدقہ)</ref><br />
</div>
<div style='text-align: center;'>ترجمہ : ـ جو آدمی اسلام میں کوئی اچھا کام جاری کرے پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے تو جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان کے اجر کی مثل اس (جاری کرنے والے) کے لئے بھی لکھا جائے گا، اور خود ان عمل کرنے والوں کے اجر میں سے کچھ کم نہ ہوگا۔ اور جو کوئی اسلام میں کوئی برا کام جاری کرے پھر اس کے بعد لوگ اپنے عمل میں لائیں تو ان سب کو جو گناہ ہوگا وہ اس (جاری کرنے والے) کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا ، جبکہ عمل کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی۔/div>
 
اسی طرح بہت سے ایسے افعال جو حضورمحمد صلیبن عبد اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہزندگی میں اس طرح سے نہیں تھے اور صحابہان اکرامکے علیہمصحابہ الرضوانکرام یا اَن کے بعد امتِ مسلمہ میں مروج ہوئے جیسے قرآنِ مجید کو خلیفہ اول حضرت [[عبداللہ ابن ابی قحافہ|ابو بکر صدیق]] رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں کتابی شکل میں جمع کرنا یا بعد ازاں [[حجاج بن یوسف]] کے دور میں قرآنِ پاک پر اعراب لگانا، [[فقہ]]، [[نحو]]، [[عید میلاد النبی]]، [[درود و سلام]]، ایمانِ مفصل و ایمانِ مجمل، چھ کلمے، مساجد میں مینار گنبد و محراب، [[تصوف]] و [[طریقت]] و [[معرفت]]، سوم،ایصال ٹواب کے چہلم،مروجہ ختم،طریقے، عرس اور [[گیارہویں شریف]] وغیرہ ایسے افعال ہیں جو امت میں مروج ہوئے اور کسی شرعی حکم سے ٹکراؤ اور مخالفت نہ رکھنے کے باعث یہ افعال حدیثِ نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روشنی میں بدعتِ حسنہ کے ضِمن میں آتے ہیں۔
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے دین میں کوئی نیا اچھا عمل جاری کرنا جو شریعت کے بنیادی اصولوں کے مخالف نہ ہو نہ صرف جائز بلکہ مستحب عمل ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رمضان المبارک میں باجماعت نمازِ تراویح شروع کرنے کے اپنے عمل کو از خود ({{ٹ}} قَالَ عُمَرُ نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ھَذِھِ{{ن}} ۔ یہ اچھی بدعت ہے، بخاری<ref>([[صحیح بخاری]] از [[امام بخاری]] ۔ کتاب صلاۃ تراویح، بابُ فَضلِ مَن قامَ رَمَضَانَ)</ref>) فرماکر نبیِ کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حدیثِ مبارکہ کی عملی تشریح کی۔
 
اسی طرح بہت سے ایسے افعال جو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں اس طرح سے نہیں تھے اور صحابہ اکرام علیہم الرضوان یا اَن کے بعد امتِ مسلمہ میں مروج ہوئے جیسے قرآنِ مجید کو خلیفہ اول حضرت [[عبداللہ ابن ابی قحافہ|ابو بکر صدیق]] رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں کتابی شکل میں جمع کرنا یا بعد ازاں [[حجاج بن یوسف]] کے دور میں قرآنِ پاک پر اعراب لگانا، [[فقہ]]، [[نحو]]، [[عید میلاد النبی]]، [[درود و سلام]]، ایمانِ مفصل و ایمانِ مجمل، چھ کلمے، مساجد میں مینار گنبد و محراب، [[تصوف]] و [[طریقت]] و [[معرفت]]، سوم، چہلم، ختم، عرس اور [[گیارہویں شریف]] وغیرہ ایسے افعال ہیں جو امت میں مروج ہوئے اور کسی شرعی حکم سے ٹکراؤ اور مخالفت نہ رکھنے کے باعث یہ افعال حدیثِ نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روشنی میں بدعتِ حسنہ کے ضِمن میں آتے ہیں۔
 
اسی طرح جو افعال شریعت سے ٹکراو رکھتے ہیں وہ بدعتِ سیئۃ یعنی بری بدعت کے زمرے میں آتے ہیں اور شرعی لحاظ سے ممنوع ہیں۔
 
=== اہل حدیث مکتبہ فکر موقف ===
بدعت کے بارے میں [[اہل حدیث]] مکتبہ[[مکتب فکر]] کا موقف بدعت کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور اسے صرف جہنم میں لے جانے والا عمل گردانا جاتا ہے۔
 
[[اہل حدیث]] بدعات کے رد میں درج ذیل دلائل پیش کرتے ہیں :
قرآن و حدیث سے جو بات ثابت نہیں، وہ بدعت ہے:
 
# [[جابر بن عبداللہ رضیعبد اللہ عنہ]] فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دیتے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے جیسے کہ اس کا حق ہے۔ پھر فرماتے جیسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔ یقین رکھو سب سے سچی کتاب اللہ کی کتاب اور سب سے بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ ہے۔ سب سے بری چیز (دین میں) نئی چیز پیدا کرنا ہے اور """ہر""" نئی چیز بدعت ہے ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہیی جہنم میں لے جائے گی۔ <ref>سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1583 (21514)، عیدین سے متعلقہ احادیث کی کتاب : خطبہ کیسے پڑھا جائے؟</ref>
ان کی دلیل یہ حدیث ہے :
# [[عرباض بن ساریہ]] سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واياكم ومحدثات الأمور فان كل محدثة بدعة ”اور تم نئی ایجاد شدہ چیزوں سے بچنا اس لئے کہ ہر ایجاد شدہ چیز بدعت ہے۔<ref>'''ابوداود 4607، ترمذي 2 297'''</ref>
# اور [[جابر بن عبد اللہ|جابر بن عبد اللہ]] کی روایت میں ہے: وشر الأمور محدثاتها وكل محدثة بدعة ”اور سب سے بری چیز نئی ایجاد شدہ چیزیں ہیں اور ہر نئی ایجاد شدہ چیز (جو دین میں ہو) بدعت ہے۔<ref>'''مسلم: 53/2 انووي'''</ref>
# ایک اور روایت میں [[محمد بن عبد اللہ|پیغمبر اسلام]] محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لكل عمل شرة ولكل شرة فترة فمن كانت فترته الى سنتي فقد اهتدى ومن كانت فترته الى غير ذلك هلك کہ ہر عمل کے لئے برائی ہے اور ہر برائی کے لیے کچھ وقت ہے تو جس کا وقت سنت کی طرف ہو تو وہ ہدایت یافتہ ہے اور جس کا اس کے علاوہ ہو تو وہ ہلاک ہے۔<ref>'''صحيح الترغيب 52 باسناد حسن، واصله فى مسند احمد 188٫2'''</ref>
# ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان الله صحبا التوبة عن كل صاحب بدعة حتى يدع بدعته کہ اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب بدعت کی توبہ کو قبول کرنے سے روک دیا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی بدعت کو چھوڑ دے۔<ref>'''صحيح الترغيب 54'''</ref>
 
=== دیوبندی مکتبہمکتب فکر ===
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دیتے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے جیسے کہ اس کا حق ہے۔ پھر فرماتے جیسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔ یقین رکھو سب سے سچی کتاب اللہ کی کتاب اور سب سے بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ ہے۔ سب سے بری چیز (دین میں) نئی چیز پیدا کرنا ہے اور """ہر""" نئی چیز بدعت ہے ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہیی جہنم میں لے جائے گی۔
مفتی کفایت الله صاحباللہ (المتوفی ١٣٧٢متوفی ھ1372ھ) لکھتے ہیں :
 
بدعت ان چیزوں کو کہتے ہیں جن کی اصل شریعت سے ثابت نہ ہو، یعنی قرآن مجید اور احادیث شریفہ میں اس کا ثبوت نہ ملے،ملے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم، صحابہ کرم رض، تابعین اور [[تبع تابعین]] کی زمانہ میں ان کا وجود نہ ہو،ہو اور اسے دین (ثواب) کا کام سمجھ کر کیا جاۓ. [جائے۔<ref>تعلیم الاسلام : حصہ چہارم ،چہارم، صفحہ ٢٧27)</ref>
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1583 (21514) , عیدین سے متعلقہ احادیث کی کتاب : خطبہ کیسے پڑھا جائے؟]
 
# جس فعل شرعی کا سبب اور محرک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود ہو اور کوئی مانع بھی نہ ہو اس کے باوجود نہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو نہ صحابہٴ کرام کو اس کے کرنے کا حکم دیا ہو۔ اور نہ ترغیب دی ہو، دین سمجھ کر ایسا کام کرنا بدعت ہے، جیسے مروجہ میلاد کا سبب (حضور کے زمانہ میں) موجود تھا۔ اور صحابہٴ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا عشق اور عقیدت و محبت تھی اس کے باوجود کسی نے آپ کا یوم ولادت منایا نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔
دورِ نبوت کے بعد کی ظاہری بدعات جو حقیقت میں بدعت نہیں تھیں:
(۲)# شریعت نے جو چیز مطلق رکھی ہے اس میں اپنی طرف سے قیودات لگانا بدعت ہے، جیسا کہ زیارت کے لیے وقت مقرر کرنا، ایصالِ ثواب کے لیے وقت متعین کرنا، مثلاً سیوم(تیجا)، چہلم(چالیسواں)۔
(۳)# جو کام بذاتِ خود مستحب و مندوب ہے، مگر اس کا ایسا التزام کرنا کہ رفتہ رفتہ اس کو ضروری سمجھا جانے لگے اور اس کے تارک کی ملامت کی جانے لگے تو وہ کام مستحب کےکی بجائے بدعت بن جاتا ہے۔ مثلاً نماز جمعہ، پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری رکعت میں ہل اتاک حدیث الغاشیة پڑھنا مسنون ہے، مگر اس کا التزام کرنا کہ لوگ اس کو ضروری سمجھنے لگیں، بدعت ہے۔
(۴)# جو کام فی نفسہ جائز ہے اگر اس کو کرنے میں کفار و فجار اور گمراہ لوگوں کی مشابہت لازم ہو تو اس کا کرنا ناجائز ہے، اس قاعدہ سے معلوم کہ تمام وہ اعمال جو اہل بدعت کا شعار بن جائیں، اس کا ترک لازم ہے۔ ان سب کی مزید و مدلل تفصیل کے لیے ([http://www.scribd.com/doc/27217220/Rah-e-Sunnat-by-Sheikh-Sarfraz-Khan-Safdar-r-a الاعتصام للعلامة الشاطبی]) کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
 
[http://urdubooklinks.blogspot.com/2012/09/sunnat-aur-bidat.html بدعت سب ہی مذموم اور قابل ترک ہیں جو کسی نے اسے حسنہ سے تعبیر کردیاکر دیا تو اس سے لغوی معنی مراد ہیں۔]
یہ کہنا کہ کئی چیزیں دین میں ایسی نئی پیدا کی گئی ہیں جن پر سلف نے کوئی انکار نہیں کیا جیسے قرآن مجید کو ایک ہی جگہ جمع کرنا، کتابت حدیث اور تدوین حدیث وغیرہ ، اس بارے میں حقیقی بات یہ ہے کہ ان کی اصل دین میں پہلے سے موجود تھی یہ کوئی محدثہ یا بدعت نہیں تھے۔ اسی طرح تراویح کے لئے حضرت عمر کی نعمت البدعۃ کی تعبیر اپنے لغوی معنی میں ہے ورنہ تراویح کی بھی اصل دین میں موجود ہے خود نبی ﷺ نے صحابہ کے ساتھ یہ نماز پڑھی ہے، البتہ فرضیت کے خدشہ سے چھوڑ دی جب وہ خدشہ نہیں رہا حضرت عمر نے اس کو جاری کر دیا۔ایسے ہی قرآن کو لکھنا نبی ﷺ سے ثابت ہے، اور اس کو ایک جگہ جمع کرنا تاکہ وہ محفوظ ہوجائے یہ دین کی ضرورت تھی۔ اسی طرح تدوین کی شکل میں کتابت حدیث سے پہلے اس لئے روکا گیا تھا کیونکہ اس سے حدیث کے قرآن میں خلط ملط ہونے کا اندیشہ تھا، یہ اندیشہ جب ختم ہوگیا تو پھر تدوین حدیث کا مرحلہ پورا کیا گیا، ورنہ مطلق کتابت حدیث تو نبی ﷺ کے دور میں ثابت ہے، جس کی تفصیل علوم الحدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔
 
باقی بدعت_حسنہبدعت حسنہ کو سنّت_حسنہسنّت حسنہ (اچھا طریقہ) کی حدیث سے ثابت کرنا اس لئےلیے صحیح نہیں کہ اس سنّت_حسنہسنّت حسنہ (اچھا طریقہ) سے مراد دوسری حدیث سے سنت ہی ثابت ہے، جو (عملاً) مردہ ہو چکی تھی، اس (اچھے طریقہ) کو جاری (زندہ) کرنا ہے، نہ کی کوئی نیا طریقہ جاری کرنا مراد ہے :
===دیوبندی مکتبہ فکر===
مفتی کفایت الله صاحب (المتوفی ١٣٧٢ ھ) لکھتے ہیں :
 
حضرت کثیر بن عبداللہعبد اللہ اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال بن حارث رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جان لو۔ انہوںانھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا جان لوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ کہ '''جس نے میرے بعد کوئی ایسی سنت زندہ کی جو مردہ ہو چکی تھی''' تو اس کے لیے اتنا ہی اجر ہوگا جتنا اس پر عمل کرنے والے کے لیے۔ اس کے باوجود ان کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور جس نے گمراہانہ بدعت نکالی جسے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پسند نہیں کرتے تو اس پر اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس برائی کا ارتکاب کرنے والوں پر ہے اور اس سے انکےان کے گناہوں کے بوجھ میں بالکل کمی نہیں آئے گی۔
بدعت ان چیزوں کو کہتے ہیں جن کی اصل شریعت سے ثابت نہ ہو، یعنی قرآن مجید اور احادیث شریفہ میں اس کا ثبوت نہ ملے، اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم، صحابہ کرم رض، تابعین اور تبع تابعین کی زمانہ میں ان کا وجود نہ ہو، اور اسے دین (ثواب) کا کام سمجھ کر کیا جاۓ. [تعلیم الاسلام : حصہ چہارم ، صفحہ ٢٧)
یہ حدیث حسن ہے اور محمد بن عیینہ مصیصی شامی ہیں جبکہ کثیر بن عبد اللہ، عمرو بن عوف مزنی کے بیٹے ہیں۔ <ref>جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 588 علم کا بیان : سنت پر عمل اور بدعت سے اجتناب کے بارے میں</ref><ref>سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 209, سنت کی پیروی کا بیان : جس نے مردہ سنت کو زندہ کیا</ref>
 
== چند مشہور اور رائج عام بدعتیں ==
جس فعل شرعی کا سبب اور محرک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود ہو اور کوئی مانع بھی نہ ہو اس کے باوجود نہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو نہ صحابہٴ کرام کو اس کے کرنے کا حکم دیا ہو۔ اور نہ ترغیب دی ہو، دین سمجھ کر ایسا کام کرنا بدعت ہے، جیسے مروجہ میلاد کا سبب (حضور کے زمانہ میں) موجود تھا۔ اور صحابہٴ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا عشق اور عقیدت و محبت تھی اس کے باوجود کسی نے آپ کا یوم ولادت منایا نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔
* ایمانِ مفصل و ایمانِ مجمل، چھ کلمے وغیرہ بعد کے ادوار کے بزرگان دین نے مرتب کئےکیے اور آج بھی تعلیمات دین کا بنیادی جزو ہیں۔
* کچھ مکتب فکر کے نزدیک [[عید میلاد النبی]]، [[درود و سلام]] اور محافل نعت بدعتیں سمجھی جاتی ہیں جو باقاعدہ طور پر بعد ازاں جاری کی گئیں [[امت مسلمہ]] کے دلوں میں جذبہ محبت و عشق رسول موجزن رکھنے میں معاون ثابت ہوئیں۔
* مساجد میں محراب، گنبد اور محراب وغیرہ کا آغاز پہلی دفعہ فاتح [[بیت المقدس]] سلطان [[صلاح الدین ایوبی]] کے دور میں ہوا۔ یہ بدعت بھی تمام اسلامی ممالک میں آج تک مستعمل ہے۔
* کچھ مکتب فکر کے نزدیک 22 رجب [[نیاز امام جعفر صادق]] ایک بدعت سمجھی جاتی ہے۔
 
== حوالہ جات ==
(۲) شریعت نے جو چیز مطلق رکھی ہے اس میں اپنی طرف سے قیودات لگانا بدعت ہے، جیسا کہ زیارت کے لیے وقت مقرر کرنا، ایصالِ ثواب کے لیے وقت متعین کرنا، مثلاً سیوم(تیجا)، چہلم(چالیسواں)۔
{{حوالہ جات}}
 
[[زمرہ:اسلامی اصطلاحات]]
(۳) جو کام بذاتِ خود مستحب و مندوب ہے، مگر اس کا ایسا التزام کرنا کہ رفتہ رفتہ اس کو ضروری سمجھا جانے لگے اور اس کے تارک کی ملامت کی جانے لگے تو وہ کام مستحب کے بجائے بدعت بن جاتا ہے۔ مثلاً نماز جمعہ، پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری رکعت میں ہل اتاک حدیث الغاشیة پڑھنا مسنون ہے، مگر اس کا التزام کرنا کہ لوگ اس کو ضروری سمجھنے لگیں، بدعت ہے۔
[[زمرہ:بدعت]]
 
(۴) جو کام فی نفسہ جائز ہے اگر اس کو کرنے میں کفار و فجار اور گمراہ لوگوں کی مشابہت لازم ہو تو اس کا کرنا ناجائز ہے، اس قاعدہ سے معلوم کہ تمام وہ اعمال جو اہل بدعت کا شعار بن جائیں، اس کا ترک لازم ہے۔ ان سب کی مزید و مدلل تفصیل کے لیے ([http://www.scribd.com/doc/27217220/Rah-e-Sunnat-by-Sheikh-Sarfraz-Khan-Safdar-r-a الاعتصام للعلامة الشاطبی]) کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
 
[http://urdubooklinks.blogspot.com/2012/09/sunnat-aur-bidat.html بدعت سب ہی مذموم اور قابل ترک ہیں جو کسی نے اسے حسنہ سے تعبیر کردیا تو اس سے لغوی معنی مراد ہیں۔]
 
باقی بدعت_حسنہ کو سنّت_حسنہ (اچھا طریقہ) کی حدیث سے ثابت کرنا اس لئے صحیح نہیں کہ اس سنّت_حسنہ (اچھا طریقہ) سے مراد دوسری حدیث سے سنت ہی ثابت ہے، جو (عملاً) مردہ ہو چکی تھی، اس (اچھے طریقہ) کو جاری (زندہ) کرنا ہے، نہ کی کوئی نیا طریقہ جاری کرنا مراد ہے:
 
حضرت کثیر بن عبداللہ اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال بن حارث رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جان لو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا جان لوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ کہ '''جس نے میرے بعد کوئی ایسی سنت زندہ کی جو مردہ ہو چکی تھی''' تو اس کے لیے اتنا ہی اجر ہوگا جتنا اس پر عمل کرنے والے کے لیے۔ اس کے باوجود ان کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور جس نے گمراہانہ بدعت نکالی جسے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پسند نہیں کرتے تو اس پر اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس برائی کا ارتکاب کرنے والوں پر ہے اور اس سے انکے گناہوں کے بوجھ میں بالکل کمی نہیں آئے گی۔
یہ حدیث حسن ہے اور محمد بن عیینہ مصیصی شامی ہیں جبکہ کثیر بن عبد اللہ، عمرو بن عوف مزنی کے بیٹے ہیں۔
 
[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 588 علم کا بیان : سنت پر عمل اور بدعت سے اجتناب کے بارے میں
 
سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 209, سنت کی پیروی کا بیان : جس نے مردہ سنت کو زندہ کیا]
 
==چند مشہور اور رائج عام بدعتیں==
* ایمانِ مفصل و ایمانِ مجمل، چھ کلمے وغیرہ بعد کے ادوار کے بزرگان دین نے مرتب کئے اور آج بھی تعلیمات دین کا بنیادی جزو ہیں۔
* [[عید میلاد النبی]]، [[درود و سلام]] اور محافل نعت جو باقاعدہ طور پر بعد ازاں جاری کی گئیں امت مسلمہ کے دلوں میں جذبہ محبت و عشق رسول موجزن رکھنے میں معاون ثابت ہوئیں۔
* مساجد میں محراب، گنبد اور محراب وغیرہ کا آغاز پہلی دفعہ فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں ہوا۔ یہ بدعت بھی تمام اسلامی ممالک میں آج تک مستعمل ہے۔
*22 رجب [[نیاز امام جعفر صادق]] علیہ السلام
 
==حوالہ جات==
* بیرونی صفحات پر موجود معلومات یا نظریات کی ذمہ دار {{ٹ}} [[منصوبہ:منتظمین|انتظامیہ اردو ویکیپیڈیا]] {{ن}} نہیں۔
<REFERENCES/>
 
[[زمرہ:اسلامی علم اصطلاحات]]
[[زمرہ:مذہبی اصطلاحات]]
[[زمرہ:فقہی اصطلاحات]]
[[زمرہ:شریعت اسلامی میں عربی الفاظ اور جملے]]
[[زمرہ:بدعت]]
[[زمرہ:ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل]]
[[زمرہ:متنازع مضامین]]
[[زمرہ:اسلامی اصطلاحات]]