مندرجات کا رخ کریں

"محمد عبداللہ غازی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 33: سطر 33:
|honorific prefix=[[شیخ الحدیث]]}}
|honorific prefix=[[شیخ الحدیث]]}}


'''محمد عبداللہ غازی''' (ولادت: 1 جون 1935ء- وفات: 17 اکتوبر 1998ء) [[لال مسجد]] اور [[جامعہ فریدیہ]] کے بانی اور [[مولانا عبدالرشید غازی]] اور [[عبد العزیز غازی|مولانا عبدالعزیز]] کے والد تھے۔
'''محمد عبداللہ غازی''' (ولادت: 1 جون 1935ء- وفات: 17 اکتوبر 1998ء) ایک پاکستانی اسلامی اسکالر جو [[رویت ہلال کمیٹی، پاکستان]] کے سابقہ چیئرمین اور [[لال مسجد]] اور [[جامعہ فریدیہ]] کے بانی تھے۔
[[مولانا عبدالرشید غازی]] اور [[عبد العزیز غازی|مولانا عبدالعزیز]] کے والد تھے۔


== ابتدائی زندگی اور تعلیم ==
== ابتدائی زندگی اور تعلیم ==

نسخہ بمطابق 19:35، 30 ستمبر 2022ء


Muhammad Abdullah Ghazi
محمد عبد اللہ غازی
فائل:Maulana Muhammad Abdullah.jpg
چانسلر جامعہ فریدیہ
قلمدان سنبھالا
1971 – 17 اکتوبر 1998ء
پیشرونیا عہدہ
جانشینعبد العزیز غازی
چیرمین رویت ہلال کمیٹی، پاکستان
قلمدان سنبھالا
1993 – 17 اکتوبر 1998ء
خطیب لال مسجد
قلمدان سنبھالا
1965 – 17 اکتوبر 1998ء
پیشرونیا عہدہ.
جانشینعبد العزیز غازی
ذاتی
پیدائش1 جون 1935(1935-06-01)
بستی عبداللہ بلوچستان، برطانوی راج
وفات17 اکتوبر 1998(1998-10-17) (عمر  63 سال)
مذہباسلام
قومیتپاکستان
اولاد مولانا عبد العزیز غازی
مولانا عبدالرشید غازی
شہریت برطانوی ہند (1935–1947)
 پاکستان (1947–1998)
دستخطmaulana abdullah
مرتبہ
استاذعلامہ سید یوسف بنوری
مفتی محمود

محمد عبداللہ غازی (ولادت: 1 جون 1935ء- وفات: 17 اکتوبر 1998ء) ایک پاکستانی اسلامی اسکالر جو رویت ہلال کمیٹی، پاکستان کے سابقہ چیئرمین اور لال مسجد اور جامعہ فریدیہ کے بانی تھے۔

مولانا عبدالرشید غازی اور مولانا عبدالعزیز کے والد تھے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

جنوبی پنجاب کے ضلع راجن پور کے گاؤں روجھان میں پیدا ہوئے۔ خاندان کی کفالت کے ناکافی ذرائع اور والد کے مذہبی رجحانات انہیں رحیم یار خان کے مدرسہ خدام العلوم لے گئے جہاں سے ابتدائی دینی تعلیم کے بعد انہیں ملک کی مشہور مذہبی سیاسی شخصیت مولانا مفتی محمود کے ملتان میں قائم مدرسہ قاسم العلوم میں داخل کروا دیا گیا۔ اس کے بعد عالم فاضل کی تعلیم کے لیے وہ کراچی چلے گئے جہاں سے مدرسہ بنوری ٹاؤن سے انہوں نے انّیس سو ستاون میں یہ اعلیٰ ترین مذہبی ڈگری حاصل کی۔

لال مسجد

تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا عبد اللہ نو سال تک کراچی کی مختلف مساجد میں امامت کرتے رہے۔ جب دار الخلافہ اسلام آباد منتقل ہوا تو یہاں کی پہلی مرکزی جامع مسجد کے لیے صدر ایوب خان نے اس وقت کے مولانا محمد یوسف بنوری کی سفارش پر مولانا عبد اللہ کو جی سکس فور میں بننے والی اس جامع مسجد کا خطیب مقرر کر دیا۔

اس وقت اسلام آباد کی کل آبادی لال مسجد کے قرب و جوار میں مقیم تھی۔ شہر کے اکابرین اسی مسجد میں آتے جاتے تھے۔ وقت گزرنے ک ساتھ مولانا عبد اللہ نے اپنے مدّاحوں کا ایک حلقہ بنا لیا جن میں افسر شاہی کے ارکان بھی تھے اور سیاست دان بھی۔

جامعہ فریدیہ

1966 میں مولانا عبد اللہ نے لال مسجد میں ایک چھوٹا سا مدرسہ قائم کیا جس میں حفظ کلاس کے لیے تقریباً 20 سے 25 طلبہ تھے۔ کچھ عرصہ بعد اس مدرسے کو چلانے کے لیے ایک بڑی جگہ کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی طلبہ کی ایک بڑی تعداد کو جگہ دی جا سکے۔ چنانچہ 1971 میں شہر کے پرائم سیکٹر E-7 میں مارگلہ پہاڑیوں کے میدانوں میں ایک جگہ، اپنے کئی قریبی دوستوں خاص طور پر سیٹھ ہارون جعفر (Jaffer Brothers Pakistan)، حاجی اختر حسن (او ایس ڈی کشمیر افیئر اینڈ فنانس سیکرٹری آزاد کشمیر) اور ایڈمرل محمد شریف کے تعاون سے حاصل کی اور مدرسے کو E7 میں منتقل کر دیا گیا۔ اور اس کا نام "جامعہ فریدیہ" رکھا گیا اور بعد میں "الفریدیہ یونیورسٹی" کے نام سے مشہور ہوا۔

1992 میں انہوں نے جامعہ حفصہ کی بنیاد رکھی جو بعد میں ایشیا کا سب سے بڑا مدرسہ بن گیا، مولانا 1998 میں اپنے قتل تک دونوں مدرسوں کے چانسلر رہے۔

سیاسی افق

سیاسی افق پر مولانا عبد اللہ اور ان کی لال مسجد تحریک ختم نبوت کے وقت نمودار ہوئے جب یہ مسجد اسلام آباد میں ہونے والی ختم نبوت تحریک کے جلسوں اور جلوسوں کا مرکز بن گئی۔ تحریک کے روح رواں مفتی محمود مولانا کے استاد تھے۔ اس تحریک کے دوران یہ تعلق سیاسی نوعیت اختیار کر گیا اور آنے والے دنوں میں وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے خلاف سیاسی تحریک میں بھی لال مسجد نے اہم کردار ادا کیا۔

ضیا دور

ضیا الحق اپنے اسلامی لبادے کے ساتھ بر سر اقتدار آئے تو دیگر بہت سوں کی طرح مولانا عبد اللہ کی بھی ان سے خاصی قربت رہی۔ وہ مرتے دم تک رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ رہے۔ مولانا عبد اللہ نے اسّی کی دہائی میں باقاعدہ ایک تحریک کے ذریعے اسلام آباد میں نئی مساجد اور مدارس کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا۔ اس دوران بیسیوں مساجدکی بنیاد رکھی گئی۔

انتقال

اس دوران مولانا نے ملک میں زور پکڑتی فرقہ واریت میں بھی سرگرم کردار ادا کیا۔ انّیس سو اٹھانوے میں جب وہ اسلام آباد میں ایک نامعلوم گولی کا نشانہ بنے تو ان کے ورثا میں بیوہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ وصیت کے مطابق ان کے بڑے بیٹے مولانا عبد العزیز کو ان کا جانشین اور لال مسجد کا خطیب مقرر کیا گیا۔

حوالہ جات